Monday, May 17, 2010

دل کےارماں آنسوؤں ۔۔۔۔۔

پاکستانی کرکٹ کے شہزادے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں حیران کن بڑاسکورکرکےبھی ہار گئے۔سیمی فائنل والی پرفارمنس اگر ٹورنامنٹ کے شروع میں ہوتی ۔توشایدنتیجہ کچھ مختلف ہوتا۔ قوم کی دعائیں سیمی فائنل تک لے آئیں۔ اگر قوم کی دعاؤں سے ہی کامیابی حاصل کرنی ہے۔ تو پھر ٹیم کے متبادل ایک دعائیہ ٹیم بھی بنا لینی چاہیے۔ جب جب ٹیم میچ کھیلے ۔دعائیہ ٹیم بھی مصلے اور تسبیح پکڑکراپنی اننگ شروع کردے۔ ٹی ٹوئنٹی میچوں پر نظر ڈالیں تو ڈھونڈے سے بھی کارکردگی نام کی چیز نہیں نظر آتی۔ شروع کے میچوں میں ہمارے ہیروز ایسےدکھائی دیئے۔جیسے اناڑی بننےچلے ہوں کھلاڑی۔رخصتی سے پہلے ٹیم کی تعریفوں کے پل باندھے گئے۔ لیکن یہ پل ناقص کارکردگی کےپہاڑ کے سامنے رائی کےدانے سے بھی بہت چھوٹے نظرآئے۔ٹیم ہاری ،قوم دکھی ہوئی۔بہت سوں نے آنسو بہائے۔۔۔ ان کی جانے بلا۔زیروبنےان ہیروزنےتو ہارکےبھی لاکھوں کمالئے۔ایکشن مارنے میں الہڑ مٹیار سے بھی دوہاتھ آگے۔کھیل کے میدان میں یہ ہیرو ٹینشن میں ہی نظر آئے۔کسی سے کیچ چھوٹا ۔کسی کو بیٹنگ مشکل لگی۔ اورکوئی کسی کے خیال میں گیند کےپیچھے بھاگتے بھاگتے باؤنڈری سے بھی پرے نکل گیا۔کوئی ٹی ٹوئنٹی کو ٹیسٹ میچ سمجھ کر کھیلتارہا۔ اورکوئی وینا ملک کےخیال میں گم مخالفوں سے درگت بنواتا رہا۔
کس کس کی بات کریں ۔سب سےاوپرہیں قومی کپتان ۔جن کی ہےاونچی دکان اورپھیکاپکوان۔ویسے توبوم بوم آفریدی ہیں۔لیکن اصل میں گھوم گھوم آفریدی ہیں۔رنزبناتےہوئےہمیشہ گھوم جاتےہیں۔کھیلنےسےزیادہ انہیں پویلین میں واپسی کی جلدی ہوتی ہے۔لیکن ان جیسا خوش قسمت کرکٹر پاکستان کی تاریخ میں پیدا ہی نہیں ہو ا ، کچھ کریں نہ کریں ۔شائقین کی ان سےامیدیں ہمیشہ حیران کن حد تک بلندیوں پر ہوتی ہیں۔ماضی بعید کی بات ہے کبھی چھکے چوکےلگانے میں ماہرتھے۔ اب تو بس دوسروں کےہاتھ میں کیچ پکڑانےکے ماہر ہیں۔یا پھر سیب کی طرح گیندچبانے کے۔ ٹی ٹونٹی ورلڈکپ میں صرف دو چھکےلگاسکے۔کبھی ایک میچ میں صرف سینتیس گیندوں پر سنچری بنائی تھی ۔ اب چھ میچ کھیل کر بھی سنچری نہ بناپائے۔موصوف کو باؤلنگ کاشوق بھی ہے۔ لیکن باؤلنگ توبیٹنگ سے بھی بری رہی۔کل چوبیس اوورز کرائےاور ایک سو بیاسی رنز دے کر چار وکٹیں لیں۔کہتے ہیں سینیئرز نے مایوس کیا۔ خودکوشایداب بھی بچہ سمجھتےہیں۔اور بچوں سے تو غلطیاں ہوہی جاتی ہیں۔
ٹیم کی بات کریں اورسب سے تجربہ کار اور منجھے ہوئے بیٹسمین کی بات نہ کریں۔۔جی ہاں ٹھیک سمجھے ۔یہ ہیں مصباح الحق ۔۔جن کی کارکردگی دیکھ کرتو دل کی بھی بند ہوگئی تھی دھک دھک۔۔اوریہی آواز آتی تھی کہ یہ کیا ہے بک بک۔دورہ آسٹریلیا کے بعد ڈراپ ہوئے تو ڈومیسٹک میں جارحانہ بلے بازی سے واپس ٹیم میں آ گئے ۔لیکن لگتاہےجیسےیہ جارحیت صرف ٹیم میں واپسی کےلئےتھی۔ٹی ٹوئنٹی کوٹیسٹ میچ سمجھ کرہی کھیلتےرہے۔ان کی منجھی ہوئی بیٹنگ دیکھ کر تو یہی کہنا پڑا بیٹنگ چھوڑیں ۔برتن مانجیں۔آج تک ریورس سویپ کے سحر سے باہر ہی نہیں نکل سکے۔لگتا ہےیہ ریورس سویپ ان کے کیریئرکو ریورس کرکے ہی رکے گا۔یہ ہیں آل راؤنڈر محمد حفیظ ۔انہیں شعیب ملک کا متبادل قرار دیا گیا۔لیکن میگا ایونٹ میں وہ آل نکال کر صرف راؤنڈر ہی دکھائی دیئے۔ڈومیسٹک کرکٹ میں ان کی منہ زوری میگا ایونٹ میں ہوگئی کمزوری۔وہ بولر دکھائی دیئے اور نہ بیٹسمن ۔چار میچوں میں صرف انتالیس رنز بنائے ۔چھ میچوں میں چودہ اوور کئے۔رنز کھائے ۔ایک سو تئیس ۔اور وکٹیں کتنی لیں صرف دووہ بھی غلطی سے جناب کا اپنا کوئی ارادہ نہ تھا ۔۔
ارے اپنے چاکلیٹی ہیرو کو ہم بھول ہی گئے تھے۔جی ہاں وہی محمد آصف۔وینا ملک والے۔نمبر ون ہیں اسی لئے ایک ہی میچ کھیلا۔لیکن اس میں بھی ویناملک سےجھگڑےکی گتھیاںسلجھاتےرہے۔اورانگلش بلے بازان کی درگت بناتےرہے۔چار
اوورز میں۔۔تینتالیس رنزدیئے۔اورچونگے میں ایک وکٹ بھی نہیں ملی۔زمین کےان ستاروں میں سعید اجمل کا ذکرنہ ہوممکن نہیں۔چھ میچوں میں گیارہ وکٹیں لےکرشاندارکارکردگی دکھائی۔لیکن دشمنوں کو یہ عزت ایک آنکھ نہ بھائی ۔شاید کسی کی بدعا ہی لگی ۔ٹورنامنٹ میں کمائی عزت آخری میچ میں خاک میں مل گئی۔ قوم کے ساتھ ان کو بھی یہ آخری اوور ہمیشہ یاد رہے گا۔ بےچارے سعیداجمل ۔۔ آخرمیں اتنی دیراوورنہیں کروایا۔جتنی دیر بیٹھ کےآنسوبہائے ۔ہائے ٹی ٹوئنٹی ہائےٹی ٹوئنٹی۔ ہائے

No comments:

Post a Comment