Sunday, October 3, 2010

آپ مارن تے واہ جی واہ ۔۔دوجے مارن تے ہا۔ہائے۔

کالی وردی والے ماریں تواسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ۔۔۔اختیارات سےتجاوز۔ظلم کی انتہا۔اور نہ جانے کیا کیا کہاجاتا ہے۔صرف یہی نہیں ۔بلکہ اس ظلم پر اعلیٰ عدالتیں ازخود نوٹس بھی لیتی ہیں۔لیکن جب ڈنڈے ،جوتوں پتھروں اور بوتلوں کا استعمال کالے کوٹ والے کریں ۔تو یہ ہے عین قانون کی پاسداری ۔۔جسے کبھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینا کہا جاتا ہے۔ تو کبھی ظالمانہ نظام سے تنگ لوگوں کی بغاوت۔

ویسے تو مظاہروں میں مارا ماری ۔۔پاکستانی تہذیب و ثقافت کا حصہ بن چکی ہے۔ اس مارا ماری میں جس کا بس چلتا ہے۔ دل کھول کر دوسرے پر غصہ نکالتا ہے۔ پولیس والے قابو میں آئے مظاہرین کی جس طرح دُرگت بناتے ہیں۔ کسی سے ڈھکی چھپکی نہیں۔جو ہتھے چڑھتے ہیں۔ ان کی ضمانت میں کئی دن تو لگ ہی جاتے ہیں۔ جب کہ تاریخیں بھگتنے کا چلہ تو پھر لمبا ہی چلتا ہے۔ اسی طرح مظاہرین بھی پولیس والوں کی خوب خبر لیتے ہیں۔پتھر ڈنڈے۔ اور جو کچھ بھی میسر ہو۔پولیس کی تواضع کےلئےاستعمال کیا جاتا ہے۔لیکن جب بات قانون کے پاسداروں کی آتی ہے۔ تو پھر منظر میں بہت کچھ بدل جاتاہے۔ قانون کےیہ بیٹے جو مرضی کریں ۔ ان کو ہتھکڑی تو لگ ہی نہیں سکتی۔ پولیس کی ہمت کہاں ۔کہ انہیں حوالات کے پیچھے بند کرے۔ کیونکہ جج صاحب بھی ایسی ویسی کوئی بات کرکے انہیں ناراض نہیں کرتے۔کبھی سناتھا کہ کالے اللہ کے پیارے ہوتے ہیں۔ لیکن آج اپنی آنکھوں سے جو دیکھا ہے۔اس میں تو ہمیں کالے کوٹ والے عدلیہ کےپیارے ہی نظرآتے ہیں۔ وہی عدلیہ جو ان کے کندھے پر چڑھ کر بحالی کے تخت تک بیٹھی۔ آج ان کی کانی نظر آتی ہے۔کوئی بڑے بڑے سے بڑا معاملہ ہو۔عدلیہ کسی کےسامنے جھکنےکو تیارنہیں۔

وزیراعظم قصوروار ہیں یاصدر۔نظام متاثرہوگا یا ملک ۔۔کوئی پرواہ نہیں۔ جو انصاف والا ہوگا وہی فیصلہ ہوگا۔ لیکن جب بات ان پیاروں پر آجائے تو ہرکسی کو عدلیہ کےکانے ہونےکا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ وکیل صاحبان چاہیں تو عدالت پرحملہ کرکے اس کے شیشے توڑیں یا پھر ججوں کوعدالت سے نکالیں ۔شہری کو پیٹیں یاپولیس والے کو ۔۔انصاف کرنےوالی آنکھ کانی ہوجاتی ہے۔ اوراس کانی آنکھ کو منظرمیں قصوروار کوئی اور ہی
نظر آتاہے۔عدالت میں پیشی ہوتو عام شہری کی جان تو ویسے ہی نکلی ہوتی ہے۔ افسر پولیس کا ہویا کسے اور محکمے کا ۔عدالت میں جاتے ہوئے اس کی بھی ٹانگیں ہی نہیں کانپتی ۔ہاتھ بھی کپکپاتے ہیں۔ اورالفاظ بھی حافظے سے محو ہوجاتے ہیں۔ دنیا کی اس چھوٹی سی انسان ساختہ بڑی عدالت میں کوئی اونچا نہیں بول سکتا کہ کہیں توہین عدالت نہ ہوجائے۔ لیکن کالے کوٹ والے عدلیہ کے دل بھاتے ان قانونی بابوؤں کےکیا کہنے ۔۔انہیں جو جج پسند نہ آئے۔ یا جو عدالت بات نہ مانے ۔۔یہ اس عدالت کی اینٹ سے بھی اینٹ بجا دیتے ہیں۔ کھری کھری سنا دیتے ہیں۔ ججوں کی دوڑیں لگوادیتے ہیں۔ سیاستدان،پولیس اور عام شہری کس کھیت کی مولی ہیں۔اب انہوں نے عدلیہ سے پھڈا لیاہے۔ جس نے ان کا احسان اتارنے کی پوری کوشش کی ہے۔لیکن یہ قانونی بابو ۔ھل من مزید ،ھل من مزید کرتے عدلیہ کے لئے عربی کا اونٹ بن چکے ہیں۔ جس نے قدم پھیلاتے ہوئے اب ججوں کو عدالت سے باہر دھکیلناشروع کردیا ہے۔اور میرٹ میرٹ کی گردان کرنے والی عدلیہ کو ان کے معاملے میں بھی میرٹ کی عینک لگا کر ہی فیصلہ کرنا ہوگا۔ ورنہ یہ ناسور کی طرح اسے وہ بیماری لگائیں گے جو اس کی کوکھ کو بانجھ پن کا تحفہ دے گی۔ اورانصاف کی پیدائش خواب بن کےرہ جائے گی۔

No comments:

Post a Comment