Monday, October 4, 2010

چیف صاحب یا چیپ صاب


لگتا ہے۔ کل کے چیف صاحب اور آج کے چیپ صاحب کو لگائی بجھائی سے کچھ خاص شغف ہے۔ اقتدارمیں تھے تو بیانات سے مخالفوں کو جلاتے رہتے تھے۔ کتاب لکھی تو اس میں بھی آگ کو نہیں بھولے۔ پھر وقت بدلا تو اقتدارسےہی نہیں دیس سے بھی نکالا مل گیا۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ رسی جل گئی بل نہیں گیا والا حساب ہے۔ بھاگنے والا نہیں ۔مقابلہ کروں گا ۔یہ سب بڑھکیں پاکستان میں رہ گئی اور خود موصوف پیا دیس سدھارگئے۔یہ اور بات ہے پیا کو ٹانکا لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔لیکن پیا تو آخر پیا ہی ہوتاہے۔ پہلے جو محفلیں ایوان صدر میں سجتی تھیں لندن اور نیویارک میں سجنے لگیں۔ سگارکا دھواں بھی خوب اڑایااور جیسے تیسے کرکے کمایا مال بھی۔ طبلے کےساتھ نہ جانے اور کیا کیا بجانا سیکھا ۔۔لیکن وقت بڑا ظالم ہے۔ اقتدار کے کاٹےدنوں کی یاد رہ رہ کر ستاتی ہے۔ جتنی مرضی موج مستی کرلیں۔ نشہ تو آخر ٹو ٹ ہی جاتا ہے۔ اوراقتدارکےدنوں کےچمچے بلکہ کف گیروں پر غصہ بھی آتاہے۔ جو اب کسی اور ہی گدھے کو باپ بنائے ہوتے ہیں۔ اب پاس نہ جادوئی چھڑی ہے۔ نہ وردی ۔جس پہن کر کروڑوں کو ایک نیا حکم جاری کرسکیں۔ ہاں اگر پاس لٹانے کو کچھ ہےتو آرام سے یا حرام سے کمائی ہوئی دولت۔ جس میں سے اپنا حصہ وصول کرنے کےلئے ابن وقتوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔اسی لئے نوسوچوہےکھانےکےبعد بلی کو پھر حج خیال آنا تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ جی ایچ کیو کے علاوہ اقتدارکےکعبہ کو اگر کوئی اورراستہ لے کر جاتا ہے تو وہ سیاست کی گلی سےہی گزرتا ہے۔ سوسیاہ ست دانوں کے قبیلے میں ایک اور سیاہ کار کا اضافہ کرنا کونسا مشکل کا م ہے۔ سونام کی ہی سہی۔ مسلم لیگ کی کوکھ سے ایک اورلیگ کا جنم ہوا۔ اورگوری چمڑی والے آقا سے زیادہ آقاکے اس سیاپا سالار نے اپنی قوم کے ساتھ کام توگِدھوں والا کیا۔لیکن پارٹی کا نشان شاہین کو بنایا۔یہ پتہ نہیں کہ یہ شاہین برطانوی ہےیا امریکی۔۔پارٹی بنالی تو پھر خطاب عالی شان کا خیال بھی آیا۔ پہلے تو سرکارکی طاقت سے جلسے کے پنڈال بھر جاتے تھے۔۔لیکن اب موصوف کو بہت اچھی طرح پتہ ہے کہ عوامی تو ہیں نہیں۔ اس رش لگانے کےلئے انہوں نے سٹیٹ آف دی آرٹ ٹیکنالوجی استعمال کی۔ یہ سٹیٹ آف دی آرٹ ٹیکنالوجی وہی ہے۔ جو ہمارے سٹیج آرٹسٹ۔۔لوگوں کو اکٹھا کرنے کےلئے استعمال کرتے ہیں ۔اورپھر اکٹھے ہوئے لوگوں کو بٹھائے رکھنے کے لئے بونگیاں مارتے ہیں۔ جسے چیپ آف دی آرٹ کا نام دیا جاتا ہے۔ سوکل کے چیف صاحب نے اسی چیپ آف دی آرٹ سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا ۔اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف سے دشمنی کا حق اداکرتے ہوئےپاکستانی سیاست میں پھر آگ لگانے کی کوشش کی۔سیاست کے نومولود نے اس تیلی کو جلانے کی کوشش تو بہت کی لیکن یہ پھُس ہی ہوگئی۔ ذاتیات پر حملے سے موصوف نے شہرت کیا کمانی تھی الٹی منہ کی کھانی پڑی۔ مسلم لیگ برادران نے جو کہنا تھا سو کہا۔ دوسروں نے بھی کم نہ کی۔ کہیں سے چلے ہوئے کارتوس کا خطاب ملا تو کہیں مردے گھوڑے اور بگوڑے کا ۔۔لیکن گونگے کی رمز کو گونگا ہی جانے ۔۔۔شیخ رشیدصاحب اپنے سابقہ باس کی ذہنی حالت اور شرارت کو خوب سمجھتے ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ گھوڑا اور پھوڑا ہاتھ لگانے سے اورپھولتاہے۔ اسی لئے شیخ صاحب نے سیاست دانوں کو مشورہ دیاہے کہ وہ مشرف کومنہ لگائیں ۔منہ نہ لگاتو مشرف صاحب کی بیان بازیاں خود ہی بند ہوجائیں گی اور ورنہ اقتدارکے مزے لوٹنےوالے مشرف کے پاس اتنی کہانی تو ہیں کہ جسے سناکر وہ سیاست دانوں کی دکھتی رگ کو چھیڑتے رہیں۔

No comments:

Post a Comment