Saturday, November 20, 2010

اک ننھی پری کا اللہ کے نام خط

میرے پیارے الله میاں……
میں تیرے نام لیوا علی اصغر بنگلزئی کی دس سالہ بچی ہوں جس نے اپنے باپ کا چہرہ صرف تصویر میں دیکھا ہے میں اپنی ماں کی کوکھ سے ابھی پیدا بھی نہیں ہوئی تھی کہ میرے باپ اپنے دوست کے ساتھ بازار سے گھر آتے ہوئے لاپتہ ہوگئے۔ میری بوڑھی ماں ، بھائی، چچا سمیت گھر کے تمام افراد کو علم نہیں کہ میرا باپ کہاں گیا ہے؟ ماں سے جب بھی سوال کرتی ہوں تو جواب میں ماں کی آنکھوں سے آنسو نکلتے ہیں جنہیں پونچھتے ہوئے میں ہمیشہ ماں سے وعدہ کرتی ہوں کہ پھر کبھی نہیں پوچھوں گی کہ ابا کہاں ہیں۔۔۔؟ یا کب آئیں گے؟۔
اللہ میاں۔۔۔۔ میرے بڑے تایا ابو پیشے کے لحاظ سے درزی ہیں وہ بتاتے ہیں کہ میرے ابو بھی درزی تھے لیکن ان کے ہاتھ کے سلے کپڑے میرے نصیب میں نہیں
تایا ابو سے جب پوچھتی ہوں کہ ابا کہاں ہیں اورکب آئیں گے۔۔۔۔؟ تو اپنی آنکھوں کے آنسوؤں پر ضبط کرتے ہوئے غصے سے بولتے ہیں کہ مجھے کپڑے سینے آتے ہیں اگر ہونٹ سینے کا ہنر جانتا تو میں تم سب کے ہونٹ سی دیتا تاکہ پھرکوئی یہ پوچھ کر میرے زخم تازہ نہ کرتا۔
اللہ میاں!میرے گھر والوں نے ابا کو کہاں کہاں تلاش نہیں کیا انصاف کیلئے ہر دروازے پر دستک دی میرے بڑے بھائی نے انصاف کے اداروں تک جا جا کر اپنی جوتیاں گھسا دیں اس نے ہمارے بہتر مستقبل کیلئے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دی لیکن میں اچھی تعلیم نہیں ابا کا پیار مانگتی ہوں ابا کا جرم کیا ہے کسی کو کچھ علم نہیں لیکن سزا ہم سب بھگت رہے ہیں میرے گھر کی دیوار پر انگور کی لپٹی بیل کی طرح غموں نے ہماری زندگی کو جکڑ رکھا ہے ہماری کوئی نہیں سنتا اس لئے میں آپ کو چٹھی لکھ رہی ہوں شاید آپ میرے اباکو واپس لاسکو کیوں کہ میں اتنا جانتی ہوں کہ آپ کے سامنے ہاتھ پھیلانے والا کوئی بھی کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹا۔
فقط آپ کی رحمت کی طلب گار
زرجان
بنت علی اصغر بنگلزئی
سریاب روڈ کوئٹہ بلوچستان

No comments:

Post a Comment