مخدوم شاہ محمود قریشی ۔پیر بھی ہیں اور وزیر بھی۔۔سیاست بھی کرتے ہیں اور سیادت بھی۔ سفارت کاری تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔مریدوں کے دم سے ہویاسیاست کےدم ،دولت کی بھی ریل پیل ہے۔ سفارت کاری کے ساتھ اب کرنےلگے ہیں مزاح نگاری بھی۔۔اور اس کی سند کسی اور سے نہیں لی۔بلکہ امریکہ بہادر سے لی ہے۔جو ہےسب پہ بھاری بھی۔جن کی باتوں نے امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کے پیٹ میں بل ڈال دیئے۔یہ الگ بات ہے کہ امریکہ نے شروع دن سے ہی پاکستان کوامداد کےنام پر پیٹ کے بل ڈال رکھا ہے۔ اس کےلئے بلوں اور ترمیموں کی بھول بھلیوں کا وبال رکھا ہے۔۔واشنگٹن میں امریکی وزیرخارجہ کےساتھ مشترکہ پریس کانفرنس ہوئی۔ توہیلری نے روکھی سوکھی روایتی باتیں ہی کیں۔ اور پھر شاہ صاحب بولے۔اورایسے بولے کہ ہیلری ہنسی کے بند باب کھولنےپر مجبورہوگئیں۔قہقہ مارکرہنسی اورہنستی ہی چلی گئیں۔ شاہ صاحب کی باتوں نے دکھایا کمال ۔۔اور ہیلری کلنٹن ہنس ہنس کر ہوئیں بے حال۔اور یہی تو مخدوم صاحب چاہتے تھے۔ہیلری صاحبہ ہنستے ہنستے بےقابوہونے لگیں تھیں۔اور شاہ صاحب سےٹکرانےلگیں تھیں۔شاہ صاحب نے بھی اپنا سرآگے کردیاتھا۔ کہ شاہوں کے شاہ کی شاہ زادی کو مشکل نہ ہو۔ لیکن یہ حسین حادثہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔اور ساداتی کا بھرم بھی رہ گیا۔ورنہ میڈیا کی کالی آنکھیں یہ منظرباربار دکھاتیں۔نئےزاویےبناتیں،مریدوں کے دل جلاتیں،تبصرےہوتے ،مظاہرےہوتےاورامریکہ مردہ باد کے نعرے ہوتے،نیلوفرکی طرح شاہ صاحب بھی وزارت سے پدھارے ہوتے۔لیکن اللہ کا شکرہے۔سیادت بھی بچ گئی وزارت بھی بچ گئی۔ معمولی بات تھی آئی گئی ہوگئی۔
Saturday, March 27, 2010
Thursday, March 25, 2010
لوڈشیڈنگ
بجلی کیا بند ہوئی
زندگی بند ہوگئی
روشنی تھی خوشی
خوشی کھو گئی
ختم ہوئےکاروبار
مزدوربےروزگار
فیکڑیوں کوتالےلگ گئے
غریبوں کےچولہےبجھ گئے
روشنیاں کھوگئیں
ظلمتیں مقدرہوگئیں
لوڈشیڈنگ بنی عذاب
ٹوٹے سب خواب
عوام کوہوئی خواری
سڑکوں پرماراماری
پھولوں کو بھی پسینہ آگیا
جھوٹا وعدہ کرنےکمینہ آگیا
گرمی سےلوڈشیڈنگ سے تنگ
ننھی پری روتے روتےسوگئی
زندگی بند ہوگئی
روشنی تھی خوشی
خوشی کھو گئی
ختم ہوئےکاروبار
مزدوربےروزگار
فیکڑیوں کوتالےلگ گئے
غریبوں کےچولہےبجھ گئے
روشنیاں کھوگئیں
ظلمتیں مقدرہوگئیں
لوڈشیڈنگ بنی عذاب
ٹوٹے سب خواب
عوام کوہوئی خواری
سڑکوں پرماراماری
پھولوں کو بھی پسینہ آگیا
جھوٹا وعدہ کرنےکمینہ آگیا
گرمی سےلوڈشیڈنگ سے تنگ
ننھی پری روتے روتےسوگئی
ہائےقوم کی قسمت سوگئی
اندھیروں کی نذرہوگئی
Friday, March 19, 2010
بہت ہوگیا۔۔۔
اب بدل لو خود کو
یہ ہے قائد کا پاکستان۔۔۔ہردم پریشان ۔ہرروز نیا بحران۔جہاں ٹریفک میں پھنسی ایمبولینسیں چیختی رہتی ہیں۔۔مریض تڑپتے رہتےہیں۔۔مرتےرہتےہیں۔رکشہ خان پیداہوتےرہتےہیں۔اورحکمرانوں کےقافلے چلتے رہتےہیں۔عوام کو طاقت کا سرچشمہ تو کہا جاتا ہے۔لیکن اس چشمے میں اول تو پانی کم ہی چڑھتا ہے۔ اگرکبھی طغیانی کا خطرہ پیداہوتا ہے۔ تو اقتدارکی طاقت کے ذریعے یہ چشمہ خشک بھی کردیا جاتاہے۔ لوہے کو لوہا کاٹتاہے۔یہ بات ہمارے حکمرانوں کو خوب پتا ہے۔ عوامی طاقت کا پتہ کاٹنے کےلئے وہ پولیس کا پتہ پھینکتے ہیں۔جوعوام کے دیئے ٹیکسوں پر پلتی ہے۔لیکن سرکارکےاشاروں پرچلتی ہے۔شاہ سےزیادہ شاہ کی وفادار ہے۔ماراماری سے اس کو تو ویسے بھی پیار ہے۔ لاٹھیاں اورآنسو گیس لاتی ہے۔ اورعوام کو آٹھ آٹھ آنسو رلاتی ہے۔جب آتی ہے۔ تو عوامی طاقت کا نشہ ہوا ہوجاتا ہے۔ اگر کبھی ۔۔لوگ بپھرجائیں۔اپنی بات پہ اڑجائیں۔ظلم کےسامنےسینہ سپرجائیں۔توپھربھی کرسی کےپجاری نہیں ڈگمگاتےہیں۔ذہن لڑاتے ہیں۔طاقت کوسازش سےدباتے ہیں۔پھوٹ ڈلوائی جاتی ہے۔ جھوٹے وعدوں کی مرہم لگائی جاتی ہے۔ سینوں میں لگی آگ بجھائی جاتی ہے۔ لیکن بات اپنی ہی منوائی جاتی ہے۔ کیونکہ عوام جو ٹھہرے ازل کےبھولےبھالے۔کبھی زندہ باد کبھی مردہ باد کےنعرےلگانےوالے۔چوروں کو۔۔لٹیروں کوقاتلوں کو سرآنکھوں پر بٹھانے والے۔۔۔دیکھی مکھی کھانےوالے۔آزمائے ہوؤں کو باربارآزمانےوالے۔ظالموں کےلیے جانیں گنوانےوالے۔جنہیں سیاہ ست دان کہتے ہیں اپنے سالے۔۔ہاں ۔۔ہاں یہی سب ہیں ان مسئلوں کے رکھوالے۔۔جنہوں نے سڑکوں پر انسان مارڈالے ۔ٹریفک میں بچے پیداکرڈالے۔کیسے کیسے ہیرےمٹی میں رول ڈالے۔خود ہی ظلم کریں، خود ہی بین ڈالیں۔نظام کےغلام۔نشان کےغلام۔۔ابہام کےغلام۔کوئی اور نہیں اپنے مسیحا خو د ہیں ۔مگر سوئے ہوئے بےسدھ ہیں۔اے سوئے لوگو۔۔۔جان لو خود کو نہ بدلو گے تو بدل دیئے جاؤ گے۔کیونکہ یہی خالق کا قانون ہے۔اوریہی دنیا کی تاریخ۔
یہ ہے قائد کا پاکستان۔۔۔ہردم پریشان ۔ہرروز نیا بحران۔جہاں ٹریفک میں پھنسی ایمبولینسیں چیختی رہتی ہیں۔۔مریض تڑپتے رہتےہیں۔۔مرتےرہتےہیں۔رکشہ خان پیداہوتےرہتےہیں۔اورحکمرانوں کےقافلے چلتے رہتےہیں۔عوام کو طاقت کا سرچشمہ تو کہا جاتا ہے۔لیکن اس چشمے میں اول تو پانی کم ہی چڑھتا ہے۔ اگرکبھی طغیانی کا خطرہ پیداہوتا ہے۔ تو اقتدارکی طاقت کے ذریعے یہ چشمہ خشک بھی کردیا جاتاہے۔ لوہے کو لوہا کاٹتاہے۔یہ بات ہمارے حکمرانوں کو خوب پتا ہے۔ عوامی طاقت کا پتہ کاٹنے کےلئے وہ پولیس کا پتہ پھینکتے ہیں۔جوعوام کے دیئے ٹیکسوں پر پلتی ہے۔لیکن سرکارکےاشاروں پرچلتی ہے۔شاہ سےزیادہ شاہ کی وفادار ہے۔ماراماری سے اس کو تو ویسے بھی پیار ہے۔ لاٹھیاں اورآنسو گیس لاتی ہے۔ اورعوام کو آٹھ آٹھ آنسو رلاتی ہے۔جب آتی ہے۔ تو عوامی طاقت کا نشہ ہوا ہوجاتا ہے۔ اگر کبھی ۔۔لوگ بپھرجائیں۔اپنی بات پہ اڑجائیں۔ظلم کےسامنےسینہ سپرجائیں۔توپھربھی کرسی کےپجاری نہیں ڈگمگاتےہیں۔ذہن لڑاتے ہیں۔طاقت کوسازش سےدباتے ہیں۔پھوٹ ڈلوائی جاتی ہے۔ جھوٹے وعدوں کی مرہم لگائی جاتی ہے۔ سینوں میں لگی آگ بجھائی جاتی ہے۔ لیکن بات اپنی ہی منوائی جاتی ہے۔ کیونکہ عوام جو ٹھہرے ازل کےبھولےبھالے۔کبھی زندہ باد کبھی مردہ باد کےنعرےلگانےوالے۔چوروں کو۔۔لٹیروں کوقاتلوں کو سرآنکھوں پر بٹھانے والے۔۔۔دیکھی مکھی کھانےوالے۔آزمائے ہوؤں کو باربارآزمانےوالے۔ظالموں کےلیے جانیں گنوانےوالے۔جنہیں سیاہ ست دان کہتے ہیں اپنے سالے۔۔ہاں ۔۔ہاں یہی سب ہیں ان مسئلوں کے رکھوالے۔۔جنہوں نے سڑکوں پر انسان مارڈالے ۔ٹریفک میں بچے پیداکرڈالے۔کیسے کیسے ہیرےمٹی میں رول ڈالے۔خود ہی ظلم کریں، خود ہی بین ڈالیں۔نظام کےغلام۔نشان کےغلام۔۔ابہام کےغلام۔کوئی اور نہیں اپنے مسیحا خو د ہیں ۔مگر سوئے ہوئے بےسدھ ہیں۔اے سوئے لوگو۔۔۔جان لو خود کو نہ بدلو گے تو بدل دیئے جاؤ گے۔کیونکہ یہی خالق کا قانون ہے۔اوریہی دنیا کی تاریخ۔
Tuesday, March 9, 2010
پاکستانی سیاہ ست دانوں پرایک نظر
مردِ لڑ۔۔(حُر)یعنی زورداری صاحب نے تو اب لڑائی مارکٹائی سے توبہ کرلی ہے۔کیونکہ انہیں پتہ ہے۔لڑائی مارکٹائی کے بعدجیل یاتراکرناپڑتی ہے۔اس لئے لڑائی سے بچنے کےلئے وہ وعدے کرتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ وعدوں کو قرآن حدیث نہیں سمجھتے اس لئے توڑ دیتے ہیں لیکن پھر بھی لڑائی نہیں کرتے ۔ان کی پیاری نے دنیا چھوڑی تو انہوں نے ایوانِ دگڑ (صدر)میں گوشہ نشینی اختیارکرلی۔۔دشمن کمزور نہ سمجھیں اورکبھی حریت پہ جو زد پڑتی ہے۔ تو وہیں سے ٹیلی فونک خطاب کے ذریعے دھاڑ لیتے ہیں۔ڈرتے بالکل نہیں ۔صرف لڑائی سے بچنے کےلئےہی ۔باہرنکلنےسے کتراتے ہیں۔عوام کی خدمت کے جذبے سے بھی دل سرشار ہے۔ اسی لئےاندر بیٹھےسنتِ مشرفی ادا کرتے رہتےہیں یعنی اندربیٹھےہی منصوبوں کےافتتاح پر افتتاح فرماتے جاتے ہیں۔
پاکستانی سیاست میں اب ذکر ہے ان کا۔ جن کی گفتگو ایسی کہ مخالف کو پسینہ آئے۔ جب چاہتے ہیں۔ بجادیتے ہیں دوسروں کی ٹلی۔ اس لئے لوگ کہتے ہیں انہیں شیدا ٹلی۔ لیکن این اے پچپن کے الیکشن میں ان کی اپنی ٹلی بج گئی ہے۔۔بہت سی لیگوں میں سفر کیا لیکن کوئی پسند نہ آئی ۔اب اپنی لیگ بنائی ہے۔جس کی سکوٹری پر فی الحال اکیلےہی نظر آتے ہیں۔سیٹوں کی پرواہ نہیں ۔اس لئے اس پرایک ہی سیٹ لگائی ہے۔ لیکن عوام کے پکے ہمدرد ہیں۔ کہتے ہیں ۔اقتدار ملا تو مہنگائی ختم کردیں گے۔لیکن ہارکے بعد اب کہتے ہیں سگارملا تواپنے سب غم ختم کردیں گے۔۔اندر کی سب خبریں ہیں ان کے پاس ۔صرف ایک اپنی شادی کی ہی خبر نہیں۔شاید۔مہنگائی سے ڈرتے ہیں۔ اس لئے شادی نہیں کرتے ہیں۔ اوپر سے کہتے ہیں شادی اور محبت کے لئے وقت نہیں ۔لیکن الیکشن میں یاروں کی مہربانی سے۔ اب ان کے پاس وقت ہی وقت ہے۔ ہارکا غم اور سگارکا دھواں ہی آج کل ان کےہمراہی ہیں۔
سیاست کے اتنے سارے یزیدوں سے دو حسین بھی برسرِ پیکارہیں۔۔۔ کوئی کام کرتے نہیں۔۔ رہتے بیکارہیں۔۔ایک ملک کی سیر کرتے ہیں اور ایک لندن کی۔۔۔یہ الگ بات ہےدوسرے بھی انہیں یزیدہی سمجھتےہیں۔
ایک کا نام ہے بقراط حسین۔۔اور دوسرے ہیں کاف حسین
اک موصوف جب بولتےہیں۔توخردودانش کے موتی بکھیرتےہیں۔ لیکن بے عقل لوگ کان ٹٹولتےہیں۔شک ہوتا ہے۔ لب ہلتےہیں یا واقعی کچھ بولتےہیں۔یوں لگتا ہے جیسے لیتے ہیں لوگوں کا امتحان ۔ان کی کہی ہوئی باتیں سمجھ سکتے ہیں صرف یارانِ نکتہ دان۔۔ ۔۔۔ان کے دور میں کوئی مرا۔ کوئی آپریشن ہوا۔یا۔آیا آٹے چینی کا بحران ۔۔یہ اس وقت بھی صحیح تھے۔ اور اب بھی ہمیشہ رہتے ہیں۔ کُول اور کہتےہیں ۔۔سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔بس تسی مٹی پاؤ۔۔مٹی پاؤ
اور۔جب آتی ہے کاف حسین کی باری ۔۔لوگوں پر بھی ہوتا ہے خطاب سننا بھاری۔۔یوں لگتا ہے ۔۔گرڑ گرڑ کرکےچلتی ہے۔ گاڑی۔۔حکومت ۔اورلوگوں کو ہی نہیں ۔۔لفظوں کو بھی کھینچتے ہیں۔۔بادشاہ نہیں بادشاہ گر کہلانا چاہتے ہیں۔جو یہ کرتے ہیں وہ سب صحیح ۔باقی سب غلط۔ ۔۔اور غلطی۔۔غلطی تو ان سے برداشت نہیں ہوتی۔ اس لئے ان کے وزیر استعفے ہمیشہ جیب میں رکھتے ہیں۔ ادھر بات نہ مانی گئی۔ ۔۔ ادھر استعفے باہر۔۔بات مانی گئی تو پھرتو آپ سمجھتے ہی ہیں ۔۔ سب ٹھیک ہے۔
ایک وہ ہیں جن پر ہوا تھا اک بار کرمِ الہیٰ۔۔۔بس اس وقت سے ذہن و دل کی تباہی۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر گرے ۔۔۔آٹا مہنگا ہو یا سستا۔۔۔انہیں صرف ہوتا ہے۔ پنجاب حکومت سے بس گلہ۔۔۔ان کے دور میں تو شیر اور بکری ایک ہی نلکے سے پانی پیتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس میں سے پانی نہ اس وقت آتا تھا ۔۔نہ اب۔صحافیوں کو پلاٹ دیئے۔۔اورخبروں کےحقوق لےلئے۔۔اس لئے۔۔عہدے نہ ہونے کے باوجود بھی خبروں میں نظر آتے ہیں۔
بہت عرصے تک ملک پر راج کیا بابرہ شریف نے ۔اور لوگوں نے سمجھنا شروع کردیا پاکستان میں صرف بابرہ شریف ہی شریف ہیں۔لیکن پھر یہ مرد مجاہد میدان میں اترا۔۔اورہمددردوں کےتعاون سے شرافت کے میدانوں میں جھنڈے گاڑ دیئے۔اور اب جب بھی شریفوں کی بات ہوتی ہے۔ توسمجھیں انہیں کی بات ہوتی ہے۔ شرافت تو ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ اس بات کابہرحال پتہ نہیں چل سکا کہ یہ کُٹ حقیقی ابا جی کی ہے یا سیاسی۔۔
ویسے تو فارغ البال ہیں۔۔لیکن اب سرپر چند بال لگوالئےہیں۔۔لیکن یہ شایداسی شرافت کا اثر ہےکہ تیزبےشرم (پرویزمشرف) کے علاوہ انہیں سب ہرا ہی دکھتا ہے۔ مردِ لڑ۔۔زور۔داری کے وعدوں پر انہیں اعتبار نہیں ۔۔لیکن پھربھی انہوں نے سر پر فرینڈلی اپوزیشن کی اوڑھنی ۔اوڑھ رکھی ہے۔شاید نئے لگے بالوں کو حجامت سے بچانے کےلیے۔۔ملک میں موجود جھنجٹوں سے جان چھڑائے کےلئے۔جس میں سے کبھی کبھی وہ غصے والی آنکھیں دکھاتے ہیں ۔
Subscribe to:
Posts (Atom)