Friday, March 19, 2010

بہت ہوگیا۔۔۔

اب بدل لو خود کو
یہ ہے قائد کا پاکستان۔۔۔ہردم پریشان ۔ہرروز نیا بحران۔جہاں ٹریفک میں پھنسی ایمبولینسیں چیختی رہتی ہیں۔۔مریض تڑپتے رہتےہیں۔۔مرتےرہتےہیں۔رکشہ خان پیداہوتےرہتےہیں۔اورحکمرانوں کےقافلے چلتے رہتےہیں۔عوام کو طاقت کا سرچشمہ تو کہا جاتا ہے۔لیکن اس چشمے میں اول تو پانی کم ہی چڑھتا ہے۔ اگرکبھی طغیانی کا خطرہ پیداہوتا ہے۔ تو اقتدارکی طاقت کے ذریعے یہ چشمہ خشک بھی کردیا جاتاہے۔ لوہے کو لوہا کاٹتاہے۔یہ بات ہمارے حکمرانوں کو خوب پتا ہے۔ عوامی طاقت کا پتہ کاٹنے کےلئے وہ پولیس کا پتہ پھینکتے ہیں۔جوعوام کے دیئے ٹیکسوں پر پلتی ہے۔لیکن سرکارکےاشاروں پرچلتی ہے۔شاہ سےزیادہ شاہ کی وفادار ہے۔ماراماری سے اس کو تو ویسے بھی پیار ہے۔ لاٹھیاں اورآنسو گیس لاتی ہے۔ اورعوام کو آٹھ آٹھ آنسو رلاتی ہے۔جب آتی ہے۔ تو عوامی طاقت کا نشہ ہوا ہوجاتا ہے۔ اگر کبھی ۔۔لوگ بپھرجائیں۔اپنی بات پہ اڑجائیں۔ظلم کےسامنےسینہ سپرجائیں۔توپھربھی کرسی کےپجاری نہیں ڈگمگاتےہیں۔ذہن لڑاتے ہیں۔طاقت کوسازش سےدباتے ہیں۔پھوٹ ڈلوائی جاتی ہے۔ جھوٹے وعدوں کی مرہم لگائی جاتی ہے۔ سینوں میں لگی آگ بجھائی جاتی ہے۔ لیکن بات اپنی ہی منوائی جاتی ہے۔ کیونکہ عوام جو ٹھہرے ازل کےبھولےبھالے۔کبھی زندہ باد کبھی مردہ باد کےنعرےلگانےوالے۔چوروں کو۔۔لٹیروں کوقاتلوں کو سرآنکھوں پر بٹھانے والے۔۔۔دیکھی مکھی کھانےوالے۔آزمائے ہوؤں کو باربارآزمانےوالے۔ظالموں کےلیے جانیں گنوانےوالے۔جنہیں سیاہ ست دان کہتے ہیں اپنے سالے۔۔ہاں ۔۔ہاں یہی سب ہیں ان مسئلوں کے رکھوالے۔۔جنہوں نے سڑکوں پر انسان مارڈالے ۔ٹریفک میں بچے پیداکرڈالے۔کیسے کیسے ہیرےمٹی میں رول ڈالے۔خود ہی ظلم کریں، خود ہی بین ڈالیں۔نظام کےغلام۔نشان کےغلام۔۔ابہام کےغلام۔کوئی اور نہیں اپنے مسیحا خو د ہیں ۔مگر سوئے ہوئے بےسدھ ہیں۔اے سوئے لوگو۔۔۔جان لو خود کو نہ بدلو گے تو بدل دیئے جاؤ گے۔کیونکہ یہی خالق کا قانون ہے۔اوریہی دنیا کی تاریخ۔

3 comments:

  1. Excellent effort keep it up

    ReplyDelete
  2. Rana Sahib.....great effort...you must try to bridge short lines into a story.....A story that tells information or holds a clock of words centered by a notion.....!!!
    I always expect more from u....with good wishes

    ReplyDelete