Wednesday, April 20, 2016

آئو بیعت کریں اُس کی جس کا دنیا دم بھرتی ہے



دنیا کے کونے کونے میں ان کی  علمیت کی دھاک بیٹھی۔چشمانِ کرم ،چہار سو ئے عالم میں جاری  و ساری ہیں۔
علم  پر آں جناب کا قبض و تصرف  مشارق و مغارب  میں تسلیم و  سکہ بند ہے۔ان کے مریدین و عشاق   تو گنتی و شمار میں ہی نہیں۔بحر و بر، جبل و صحرا  ، ویرانہ و عالم میں  یوں پھیلےہیں جیسے آسمان پر ستارے ۔سارے مریدین حضرتِ والا کی فیوض و  برکات  سے ہر لمحہ ہرآن  بہرہ مند ہوتے ہیں۔آستانہ ِ عالیہ تک ہرکسی کی  نہ صرف رسائی ہے بلکہ  فیض رسانی کےلئے مشرق و مغرب  کی تمیز ہے ، نہ رنگ و نسل کا امتیاز،
غریب و امیر کا فرق نظر میں  ہے نہ علم و جہل    پراعتراض۔دن  رات  مدِ نظر ہے نہ جاگنے سونے سے کوئی غرض۔ادھر مشتاقانِ علم و عرفان کوئی  مدعا ،حضور کے گوش گزار نے کی سعی کرتے ہیں، لفظ ابھی ترتیب نہیں پاتے کہ غیب دانی  کے مظاہرکی  جلوہ نمائی  ہونے لگتی ہے۔
مطلوب و مقصود کیا ہوسکتا ہے،  ممکنات کا ایک انبارِ بلند  ازطرح ہمالا  سائل کے سامنے استرِ ریشم  کی طرح بچھا دیتے ہیں۔کسی پہیلی کا  جواب چاہیے یا سہیلی کے سراپا حسن کے جلوے،ایٹم بم بنانے کا فارمولہ   ہو یا  پالتو بلی کےلئے بہترین شیمپو کے انتخاب کا مرحلہ ،قسم قسم کا کھانا بنانے کے سلیقے  ہو ں یا پھر لڑکیاں پٹانے کے طریقے،فلمی ستاروں کی مصروفیات ہو پھر دینی ضروریات،تاریخی کہانیاں ہو ں یا پھر  جدت کی نشانیاں
بلکہ سچ کہوں تو ان کی ذاتِ مبارکہ ایسے ہے جیسے پیاسے کےلئے پانی اور بھوکے  کے لئے روٹی ،غرض ،تعلیم ،تفریح ، ریسرچ،  تشریح، سیکیورٹی ، صوتی پیغام رسانی، مشکل مسائل کا حل ، گھر بیٹھے دنیا کی سیر،  کیا ہے جو حضرتِ والا کی دسترس میں نہیں۔۔یہ تو اپنی اپنی پسند ہے کون  دنیا چاہتا ہے کون آخرت، کون جنت کا انتخاب کرتا ہے کون دوزخ کے پتے پوچھتا ہے۔قبلہ نے ہر چیز ، ہرراز ، ہر مخفی  شے کھول کر سب کے سامنے رکھ دی ہے۔ سو نصیب اپنا اپنا ہے  کون  کس انواع کے ، لوازمات و موضوعات و مندرجات  کا  انتخاب  کرتا ہے،حضور کو  اس سے بھی کوئی غرض نہیں کہ حاجت مند ،حاجت روائی کےبعد  شکرگزاری  بجالاتا ہے یا نہیں، قبلہ اپنے فیض کو عام   کرنے ، سہل بنانے ، ہر ذی نفس تک پہنچانے  کی تپسیا میں  ہیں۔ یہ مختصر سا تعارف تو حضور کی قابلیتوں ، صلاحیتوں  ، عنایتوں اور نوازشوں کے آگے ایسے ہی ہے جیسے سورج کے سامنے چراغ،  لیکن بندہ ناقص، حضور کی شان کے مطابق  ان کا تعارف پیش کرنے سے خود کو عاجز پاتا ہے،   کم علمی  کا اعتراف کرتا ہے اور آستانہ عالیہ گوگلیہ کا دم بھرتا ہے۔ اور  انٹرنیٹ  کے شہنشاہ،   سرچ انجنوں کے عالم پناہ، معلومات کے منبع  ،جنہیں دنیا   گوگل سرکار کے نام سے جانتی ہے۔  ان کے دستِ نیٹ پر بیعت   کےلئے   سرِ تسلیم خم کرتا ہے۔



No comments:

Post a Comment