Monday, April 4, 2016

ایسی بیماری جس کا علاج صرف چھتر





ایک خطرناک دماغی بیماری ہے   جو پاکستان میں تیزی سے پھیلتی جارہی ہے۔
اس مرض کے جرثومے  پہلے صرف اقتدار ی جگہوں پر پائے جائے تھے ، اب تقریباً ہر پوش علاقے میں پھیل گئے ہیں  ، ۔یہ خطرناک جرثومے اچھے بھلے انسان کا دماغ خراب کردیتے ہیں۔ جیسے ہی دل و دماغ میں  گھستے ہیں۔مرض کی شدت  نمایاں ہوجاتی ہے۔اس مرض کی جانی پہچانی علامات    کثیر ہیں۔لیکن پہلا  اور فوری  اثر دماغ پر ہوتا ہے ،عقل رخصت ہوکر اسے مکمل طور پر خالی کردیتی ہے ۔خالی دماغ میں  غرور تکبر ،اناپرستی ، خود ستائشی  و نمائشی ،جہالت ، بے شرمی ،ڈھٹائی  ،حسد، نفرت اور جانے کیا کیا  نجس و مکروہ قسم  کا بھوسہ بھر جاتا ہے  ،   مریض  خود کو انسان سمجھنا چھوڑ دیتا ہے۔دوسرے انسان اُسے کیڑے مکوڑوں سے بھی کم تر ٹائپ  کی مخلوق دکھائی دینے لگتے ہیں  ۔جسمانی اثر  سب سے زیادہ گردن اور چہرے پر دکھائی دیتا ہے۔ گردن کے پٹھوں میں ایسا اکڑائو آجاتا  ، جیسا شاید سریا گھسانے سے بھی نہیں آتا ۔دل سے انسانیت ، رحم دلی ، ہمدردی ،خدا ترسی ، خدا خوفی ، عفو و درگذر  اور معاف کرنے کے جذبات ایسے غائب ہوجاتے ہیں   ،جیسے گدھے کے سر سے سینگ، دوسروں کو گدھا خیال کرتا ہے  مگر ضرورت پڑنےپر اسے باپ بنانے کو بھی تیار ہوجاتا ہے۔  اکثر مریضوں کا تو منہ ایسے بن جاتا جسے پنجابی میں فٹے منہ کہتے ہیں، ہونٹ ایسے زبردستی  بند رکھنے کی عادت پڑ جاتی ہے، جیسے منہ میں غلاظت بھری ہے ،جسے یہ عرق شیریں  و خوشبودار سمجھ کر ہونٹوں کو بھنچ کر  اندر ہی رکھنا چاہتا ہے۔ کچھ مریضوں  کے تو ناکوں کے نتھنے بھی ایسے پھولنے لگتے ہیں  ،جیسے بھینسا  کسی کو ٹکر مارنے سے پہلے  پھلاتا ہے، اکثر مریض تو دوسروں کو دیکھ کر سر بھی ہلاتے رہتے  اور ناک بھوں بھی  چڑھاتے  ہیں ،ردِعمل ایساہوتا ہے جیسے  چاروں طرف گندگی غلاطت پھیلی ہے اور باامرِ مجبوری اس پر آلتی پالتی مارے بیٹھے ہیں، حالانکہ معاشرے کی سب سے بڑی غلاطت اور گندگی یہ خود ہوتے ہیں۔  غصہ ناک پر دھرا رہتا ہے،جیسے ہی کوئی خلافِ مرضی کام ہوتا ہے ، ایسے بہنے لگتا ہے ، جیسے بچپن میں ان کا ناک بہتا تھا، فرق صرف یہ ہے کہ اس بہتی  ناک کو تو یہ چاٹ لیتے تھے ،لیکن غصہ کسی غریب  کی زندگی   چاٹ جاتا ہے، بیشتر مریضوں  کے ماتھے پر تیوریاں بھی دیکھی گئی ہیں۔ایسے مریضوں کی آنکھیں  پھٹ کر ایسے باہر نکلی ہوتی ہیں  جیسے  پھانسی پانےوالے مجرم کی آنکھیں  باہر نکل آتی ہیں۔عام خیال یہ ہے کہ کچھ کی آنکھوں میں  سور کا بال ہوتا ہے، بعض لوگ تو انہیں بھی سور کا بال خیال کرتے ہیں(یہ بال پنجابی والا پڑھا جائے)انہیں ہنستا مسکراتا ویسے کم ہی دیکھا گیا ہے۔ مگر دوسروں کو دکھ ،تکلیف ،درد دے کر مصیبت میں دیکھ کر سکون محسوس کرتے ہیں، ،انا کو تسکین ہوتی  ہے۔ باچھیں کھل کھل  جاتی ہیں، اگر کسی سے مطلب نکلوانا ہوتو  اُس سے پیار محبت، وفاداری کے اظہار کےلئے زبان  باہر نکال کر جلدی جلدی سانس لیتے ہیں، زبان سے پانی سے ٹپکتا بھی  دیکھا گیا ہے۔ شکل اور حرکات ایسی ہوتی ہیں جیسے کوئی کتا  وفاداری کا اظہار کرتا ہے ، دم ہلاتا ہے۔ان  کی دم کا پتہ نہیں ،ہلتی بھی ہے یا نہیں ،خیال میں اگر ہلاتے ہو تو اس کی خبر نہیں۔ ایسی ہی کیفیات ،اپنے سے بڑا فرعون دیکھ کر بھی ان کی ہوجاتی ہیں۔تنہائی میں گھبراتے ہیں، اور خلقت میں  گھبرانے کی اداکاری کرتے ہیں۔اطبا کے نزدیک ، ایسوں کی صحبت بھی مضر رساں  ہے،  جو ایسے مریضوں سے میل جول رکھتا ہے، ان کی صحبت میں اٹھتا بیٹھتا ہے۔ اس کے پاس مرض میں مبتلا ہونے کے وسائل نہ بھی ہو پھر بھی کچھ علامات ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں،  سو حکما کا عوام کو مشورہ یہی ہے کہ ایسوں کی صحبت سے بچا جائے، مرض کا  متفق علیہ علاج صرف   پنجابی کا چھتر ہے، وہ چاہے کسی بھی سائز ، کسی بھی ٹائپ کا ہو،  وقت کے ہاتھوں پڑے ، یا پھر انقلابِ زمانہ  یا عام عوام کے ہاتھوں ،مرض میں خاطر خواہ افاقہ ہوتا ہے، کچھ مریض پہلے چھتر پر چوں چوں کی آواز نکال کر کاٹنے کی کوشش  بھی کرسکتے ہیں ۔ مگر علاج پر اصرار اور تسلسل جاری رہے تو   تمام خطرناک جرثوموں کا خاتمہ کردیتا ہے ، دوا کی موزوں و موافق جگہ  سر ہی بتایا جاتا ہے، جہاں پڑنے سے عقل فوراً ٹھکانے آتی ہے اور خاطر خواہ فائدہ ہوتا ہے۔ مگر انقلابی حالات میں تو جہاں بھی پڑے زود اثر دیکھا گیا ہے۔

No comments:

Post a Comment