Saturday, November 20, 2010

اک ننھی پری کا اللہ کے نام خط

میرے پیارے الله میاں……
میں تیرے نام لیوا علی اصغر بنگلزئی کی دس سالہ بچی ہوں جس نے اپنے باپ کا چہرہ صرف تصویر میں دیکھا ہے میں اپنی ماں کی کوکھ سے ابھی پیدا بھی نہیں ہوئی تھی کہ میرے باپ اپنے دوست کے ساتھ بازار سے گھر آتے ہوئے لاپتہ ہوگئے۔ میری بوڑھی ماں ، بھائی، چچا سمیت گھر کے تمام افراد کو علم نہیں کہ میرا باپ کہاں گیا ہے؟ ماں سے جب بھی سوال کرتی ہوں تو جواب میں ماں کی آنکھوں سے آنسو نکلتے ہیں جنہیں پونچھتے ہوئے میں ہمیشہ ماں سے وعدہ کرتی ہوں کہ پھر کبھی نہیں پوچھوں گی کہ ابا کہاں ہیں۔۔۔؟ یا کب آئیں گے؟۔
اللہ میاں۔۔۔۔ میرے بڑے تایا ابو پیشے کے لحاظ سے درزی ہیں وہ بتاتے ہیں کہ میرے ابو بھی درزی تھے لیکن ان کے ہاتھ کے سلے کپڑے میرے نصیب میں نہیں
تایا ابو سے جب پوچھتی ہوں کہ ابا کہاں ہیں اورکب آئیں گے۔۔۔۔؟ تو اپنی آنکھوں کے آنسوؤں پر ضبط کرتے ہوئے غصے سے بولتے ہیں کہ مجھے کپڑے سینے آتے ہیں اگر ہونٹ سینے کا ہنر جانتا تو میں تم سب کے ہونٹ سی دیتا تاکہ پھرکوئی یہ پوچھ کر میرے زخم تازہ نہ کرتا۔
اللہ میاں!میرے گھر والوں نے ابا کو کہاں کہاں تلاش نہیں کیا انصاف کیلئے ہر دروازے پر دستک دی میرے بڑے بھائی نے انصاف کے اداروں تک جا جا کر اپنی جوتیاں گھسا دیں اس نے ہمارے بہتر مستقبل کیلئے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دی لیکن میں اچھی تعلیم نہیں ابا کا پیار مانگتی ہوں ابا کا جرم کیا ہے کسی کو کچھ علم نہیں لیکن سزا ہم سب بھگت رہے ہیں میرے گھر کی دیوار پر انگور کی لپٹی بیل کی طرح غموں نے ہماری زندگی کو جکڑ رکھا ہے ہماری کوئی نہیں سنتا اس لئے میں آپ کو چٹھی لکھ رہی ہوں شاید آپ میرے اباکو واپس لاسکو کیوں کہ میں اتنا جانتی ہوں کہ آپ کے سامنے ہاتھ پھیلانے والا کوئی بھی کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹا۔
فقط آپ کی رحمت کی طلب گار
زرجان
بنت علی اصغر بنگلزئی
سریاب روڈ کوئٹہ بلوچستان

Monday, October 4, 2010

چیف صاحب یا چیپ صاب


لگتا ہے۔ کل کے چیف صاحب اور آج کے چیپ صاحب کو لگائی بجھائی سے کچھ خاص شغف ہے۔ اقتدارمیں تھے تو بیانات سے مخالفوں کو جلاتے رہتے تھے۔ کتاب لکھی تو اس میں بھی آگ کو نہیں بھولے۔ پھر وقت بدلا تو اقتدارسےہی نہیں دیس سے بھی نکالا مل گیا۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ رسی جل گئی بل نہیں گیا والا حساب ہے۔ بھاگنے والا نہیں ۔مقابلہ کروں گا ۔یہ سب بڑھکیں پاکستان میں رہ گئی اور خود موصوف پیا دیس سدھارگئے۔یہ اور بات ہے پیا کو ٹانکا لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔لیکن پیا تو آخر پیا ہی ہوتاہے۔ پہلے جو محفلیں ایوان صدر میں سجتی تھیں لندن اور نیویارک میں سجنے لگیں۔ سگارکا دھواں بھی خوب اڑایااور جیسے تیسے کرکے کمایا مال بھی۔ طبلے کےساتھ نہ جانے اور کیا کیا بجانا سیکھا ۔۔لیکن وقت بڑا ظالم ہے۔ اقتدار کے کاٹےدنوں کی یاد رہ رہ کر ستاتی ہے۔ جتنی مرضی موج مستی کرلیں۔ نشہ تو آخر ٹو ٹ ہی جاتا ہے۔ اوراقتدارکےدنوں کےچمچے بلکہ کف گیروں پر غصہ بھی آتاہے۔ جو اب کسی اور ہی گدھے کو باپ بنائے ہوتے ہیں۔ اب پاس نہ جادوئی چھڑی ہے۔ نہ وردی ۔جس پہن کر کروڑوں کو ایک نیا حکم جاری کرسکیں۔ ہاں اگر پاس لٹانے کو کچھ ہےتو آرام سے یا حرام سے کمائی ہوئی دولت۔ جس میں سے اپنا حصہ وصول کرنے کےلئے ابن وقتوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔اسی لئے نوسوچوہےکھانےکےبعد بلی کو پھر حج خیال آنا تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ جی ایچ کیو کے علاوہ اقتدارکےکعبہ کو اگر کوئی اورراستہ لے کر جاتا ہے تو وہ سیاست کی گلی سےہی گزرتا ہے۔ سوسیاہ ست دانوں کے قبیلے میں ایک اور سیاہ کار کا اضافہ کرنا کونسا مشکل کا م ہے۔ سونام کی ہی سہی۔ مسلم لیگ کی کوکھ سے ایک اورلیگ کا جنم ہوا۔ اورگوری چمڑی والے آقا سے زیادہ آقاکے اس سیاپا سالار نے اپنی قوم کے ساتھ کام توگِدھوں والا کیا۔لیکن پارٹی کا نشان شاہین کو بنایا۔یہ پتہ نہیں کہ یہ شاہین برطانوی ہےیا امریکی۔۔پارٹی بنالی تو پھر خطاب عالی شان کا خیال بھی آیا۔ پہلے تو سرکارکی طاقت سے جلسے کے پنڈال بھر جاتے تھے۔۔لیکن اب موصوف کو بہت اچھی طرح پتہ ہے کہ عوامی تو ہیں نہیں۔ اس رش لگانے کےلئے انہوں نے سٹیٹ آف دی آرٹ ٹیکنالوجی استعمال کی۔ یہ سٹیٹ آف دی آرٹ ٹیکنالوجی وہی ہے۔ جو ہمارے سٹیج آرٹسٹ۔۔لوگوں کو اکٹھا کرنے کےلئے استعمال کرتے ہیں ۔اورپھر اکٹھے ہوئے لوگوں کو بٹھائے رکھنے کے لئے بونگیاں مارتے ہیں۔ جسے چیپ آف دی آرٹ کا نام دیا جاتا ہے۔ سوکل کے چیف صاحب نے اسی چیپ آف دی آرٹ سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا ۔اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف سے دشمنی کا حق اداکرتے ہوئےپاکستانی سیاست میں پھر آگ لگانے کی کوشش کی۔سیاست کے نومولود نے اس تیلی کو جلانے کی کوشش تو بہت کی لیکن یہ پھُس ہی ہوگئی۔ ذاتیات پر حملے سے موصوف نے شہرت کیا کمانی تھی الٹی منہ کی کھانی پڑی۔ مسلم لیگ برادران نے جو کہنا تھا سو کہا۔ دوسروں نے بھی کم نہ کی۔ کہیں سے چلے ہوئے کارتوس کا خطاب ملا تو کہیں مردے گھوڑے اور بگوڑے کا ۔۔لیکن گونگے کی رمز کو گونگا ہی جانے ۔۔۔شیخ رشیدصاحب اپنے سابقہ باس کی ذہنی حالت اور شرارت کو خوب سمجھتے ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ گھوڑا اور پھوڑا ہاتھ لگانے سے اورپھولتاہے۔ اسی لئے شیخ صاحب نے سیاست دانوں کو مشورہ دیاہے کہ وہ مشرف کومنہ لگائیں ۔منہ نہ لگاتو مشرف صاحب کی بیان بازیاں خود ہی بند ہوجائیں گی اور ورنہ اقتدارکے مزے لوٹنےوالے مشرف کے پاس اتنی کہانی تو ہیں کہ جسے سناکر وہ سیاست دانوں کی دکھتی رگ کو چھیڑتے رہیں۔

Sunday, October 3, 2010

آپ مارن تے واہ جی واہ ۔۔دوجے مارن تے ہا۔ہائے۔

کالی وردی والے ماریں تواسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ۔۔۔اختیارات سےتجاوز۔ظلم کی انتہا۔اور نہ جانے کیا کیا کہاجاتا ہے۔صرف یہی نہیں ۔بلکہ اس ظلم پر اعلیٰ عدالتیں ازخود نوٹس بھی لیتی ہیں۔لیکن جب ڈنڈے ،جوتوں پتھروں اور بوتلوں کا استعمال کالے کوٹ والے کریں ۔تو یہ ہے عین قانون کی پاسداری ۔۔جسے کبھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینا کہا جاتا ہے۔ تو کبھی ظالمانہ نظام سے تنگ لوگوں کی بغاوت۔

ویسے تو مظاہروں میں مارا ماری ۔۔پاکستانی تہذیب و ثقافت کا حصہ بن چکی ہے۔ اس مارا ماری میں جس کا بس چلتا ہے۔ دل کھول کر دوسرے پر غصہ نکالتا ہے۔ پولیس والے قابو میں آئے مظاہرین کی جس طرح دُرگت بناتے ہیں۔ کسی سے ڈھکی چھپکی نہیں۔جو ہتھے چڑھتے ہیں۔ ان کی ضمانت میں کئی دن تو لگ ہی جاتے ہیں۔ جب کہ تاریخیں بھگتنے کا چلہ تو پھر لمبا ہی چلتا ہے۔ اسی طرح مظاہرین بھی پولیس والوں کی خوب خبر لیتے ہیں۔پتھر ڈنڈے۔ اور جو کچھ بھی میسر ہو۔پولیس کی تواضع کےلئےاستعمال کیا جاتا ہے۔لیکن جب بات قانون کے پاسداروں کی آتی ہے۔ تو پھر منظر میں بہت کچھ بدل جاتاہے۔ قانون کےیہ بیٹے جو مرضی کریں ۔ ان کو ہتھکڑی تو لگ ہی نہیں سکتی۔ پولیس کی ہمت کہاں ۔کہ انہیں حوالات کے پیچھے بند کرے۔ کیونکہ جج صاحب بھی ایسی ویسی کوئی بات کرکے انہیں ناراض نہیں کرتے۔کبھی سناتھا کہ کالے اللہ کے پیارے ہوتے ہیں۔ لیکن آج اپنی آنکھوں سے جو دیکھا ہے۔اس میں تو ہمیں کالے کوٹ والے عدلیہ کےپیارے ہی نظرآتے ہیں۔ وہی عدلیہ جو ان کے کندھے پر چڑھ کر بحالی کے تخت تک بیٹھی۔ آج ان کی کانی نظر آتی ہے۔کوئی بڑے بڑے سے بڑا معاملہ ہو۔عدلیہ کسی کےسامنے جھکنےکو تیارنہیں۔

وزیراعظم قصوروار ہیں یاصدر۔نظام متاثرہوگا یا ملک ۔۔کوئی پرواہ نہیں۔ جو انصاف والا ہوگا وہی فیصلہ ہوگا۔ لیکن جب بات ان پیاروں پر آجائے تو ہرکسی کو عدلیہ کےکانے ہونےکا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ وکیل صاحبان چاہیں تو عدالت پرحملہ کرکے اس کے شیشے توڑیں یا پھر ججوں کوعدالت سے نکالیں ۔شہری کو پیٹیں یاپولیس والے کو ۔۔انصاف کرنےوالی آنکھ کانی ہوجاتی ہے۔ اوراس کانی آنکھ کو منظرمیں قصوروار کوئی اور ہی
نظر آتاہے۔عدالت میں پیشی ہوتو عام شہری کی جان تو ویسے ہی نکلی ہوتی ہے۔ افسر پولیس کا ہویا کسے اور محکمے کا ۔عدالت میں جاتے ہوئے اس کی بھی ٹانگیں ہی نہیں کانپتی ۔ہاتھ بھی کپکپاتے ہیں۔ اورالفاظ بھی حافظے سے محو ہوجاتے ہیں۔ دنیا کی اس چھوٹی سی انسان ساختہ بڑی عدالت میں کوئی اونچا نہیں بول سکتا کہ کہیں توہین عدالت نہ ہوجائے۔ لیکن کالے کوٹ والے عدلیہ کے دل بھاتے ان قانونی بابوؤں کےکیا کہنے ۔۔انہیں جو جج پسند نہ آئے۔ یا جو عدالت بات نہ مانے ۔۔یہ اس عدالت کی اینٹ سے بھی اینٹ بجا دیتے ہیں۔ کھری کھری سنا دیتے ہیں۔ ججوں کی دوڑیں لگوادیتے ہیں۔ سیاستدان،پولیس اور عام شہری کس کھیت کی مولی ہیں۔اب انہوں نے عدلیہ سے پھڈا لیاہے۔ جس نے ان کا احسان اتارنے کی پوری کوشش کی ہے۔لیکن یہ قانونی بابو ۔ھل من مزید ،ھل من مزید کرتے عدلیہ کے لئے عربی کا اونٹ بن چکے ہیں۔ جس نے قدم پھیلاتے ہوئے اب ججوں کو عدالت سے باہر دھکیلناشروع کردیا ہے۔اور میرٹ میرٹ کی گردان کرنے والی عدلیہ کو ان کے معاملے میں بھی میرٹ کی عینک لگا کر ہی فیصلہ کرنا ہوگا۔ ورنہ یہ ناسور کی طرح اسے وہ بیماری لگائیں گے جو اس کی کوکھ کو بانجھ پن کا تحفہ دے گی۔ اورانصاف کی پیدائش خواب بن کےرہ جائے گی۔

Friday, July 9, 2010

زندگی

یہ کس کی نظر لگی میرے چمن کو
یہ کون سے امن کےداعی آگئے
خون میں نہایا ہےہرگل
گم صم بیٹھےہیں بلبل
جہاں کبھی امن کےقہقہےگونجاکرتے تھے
آگ لگی ہے اسی نشیمن کو
جو کبھی روشنیوں کے شہرکہلاتے تھے
آج وہی اندھیرےمیں ڈوبےہیں
عجب خوف ہے
اداسی ہے
اورہےمایوسی
زندگی کبھی ایسے تو نہ تھی
زندگی کبھی ایسے تو نہ تھی


Monday, May 17, 2010

دل کےارماں آنسوؤں ۔۔۔۔۔

پاکستانی کرکٹ کے شہزادے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں حیران کن بڑاسکورکرکےبھی ہار گئے۔سیمی فائنل والی پرفارمنس اگر ٹورنامنٹ کے شروع میں ہوتی ۔توشایدنتیجہ کچھ مختلف ہوتا۔ قوم کی دعائیں سیمی فائنل تک لے آئیں۔ اگر قوم کی دعاؤں سے ہی کامیابی حاصل کرنی ہے۔ تو پھر ٹیم کے متبادل ایک دعائیہ ٹیم بھی بنا لینی چاہیے۔ جب جب ٹیم میچ کھیلے ۔دعائیہ ٹیم بھی مصلے اور تسبیح پکڑکراپنی اننگ شروع کردے۔ ٹی ٹوئنٹی میچوں پر نظر ڈالیں تو ڈھونڈے سے بھی کارکردگی نام کی چیز نہیں نظر آتی۔ شروع کے میچوں میں ہمارے ہیروز ایسےدکھائی دیئے۔جیسے اناڑی بننےچلے ہوں کھلاڑی۔رخصتی سے پہلے ٹیم کی تعریفوں کے پل باندھے گئے۔ لیکن یہ پل ناقص کارکردگی کےپہاڑ کے سامنے رائی کےدانے سے بھی بہت چھوٹے نظرآئے۔ٹیم ہاری ،قوم دکھی ہوئی۔بہت سوں نے آنسو بہائے۔۔۔ ان کی جانے بلا۔زیروبنےان ہیروزنےتو ہارکےبھی لاکھوں کمالئے۔ایکشن مارنے میں الہڑ مٹیار سے بھی دوہاتھ آگے۔کھیل کے میدان میں یہ ہیرو ٹینشن میں ہی نظر آئے۔کسی سے کیچ چھوٹا ۔کسی کو بیٹنگ مشکل لگی۔ اورکوئی کسی کے خیال میں گیند کےپیچھے بھاگتے بھاگتے باؤنڈری سے بھی پرے نکل گیا۔کوئی ٹی ٹوئنٹی کو ٹیسٹ میچ سمجھ کر کھیلتارہا۔ اورکوئی وینا ملک کےخیال میں گم مخالفوں سے درگت بنواتا رہا۔
کس کس کی بات کریں ۔سب سےاوپرہیں قومی کپتان ۔جن کی ہےاونچی دکان اورپھیکاپکوان۔ویسے توبوم بوم آفریدی ہیں۔لیکن اصل میں گھوم گھوم آفریدی ہیں۔رنزبناتےہوئےہمیشہ گھوم جاتےہیں۔کھیلنےسےزیادہ انہیں پویلین میں واپسی کی جلدی ہوتی ہے۔لیکن ان جیسا خوش قسمت کرکٹر پاکستان کی تاریخ میں پیدا ہی نہیں ہو ا ، کچھ کریں نہ کریں ۔شائقین کی ان سےامیدیں ہمیشہ حیران کن حد تک بلندیوں پر ہوتی ہیں۔ماضی بعید کی بات ہے کبھی چھکے چوکےلگانے میں ماہرتھے۔ اب تو بس دوسروں کےہاتھ میں کیچ پکڑانےکے ماہر ہیں۔یا پھر سیب کی طرح گیندچبانے کے۔ ٹی ٹونٹی ورلڈکپ میں صرف دو چھکےلگاسکے۔کبھی ایک میچ میں صرف سینتیس گیندوں پر سنچری بنائی تھی ۔ اب چھ میچ کھیل کر بھی سنچری نہ بناپائے۔موصوف کو باؤلنگ کاشوق بھی ہے۔ لیکن باؤلنگ توبیٹنگ سے بھی بری رہی۔کل چوبیس اوورز کرائےاور ایک سو بیاسی رنز دے کر چار وکٹیں لیں۔کہتے ہیں سینیئرز نے مایوس کیا۔ خودکوشایداب بھی بچہ سمجھتےہیں۔اور بچوں سے تو غلطیاں ہوہی جاتی ہیں۔
ٹیم کی بات کریں اورسب سے تجربہ کار اور منجھے ہوئے بیٹسمین کی بات نہ کریں۔۔جی ہاں ٹھیک سمجھے ۔یہ ہیں مصباح الحق ۔۔جن کی کارکردگی دیکھ کرتو دل کی بھی بند ہوگئی تھی دھک دھک۔۔اوریہی آواز آتی تھی کہ یہ کیا ہے بک بک۔دورہ آسٹریلیا کے بعد ڈراپ ہوئے تو ڈومیسٹک میں جارحانہ بلے بازی سے واپس ٹیم میں آ گئے ۔لیکن لگتاہےجیسےیہ جارحیت صرف ٹیم میں واپسی کےلئےتھی۔ٹی ٹوئنٹی کوٹیسٹ میچ سمجھ کرہی کھیلتےرہے۔ان کی منجھی ہوئی بیٹنگ دیکھ کر تو یہی کہنا پڑا بیٹنگ چھوڑیں ۔برتن مانجیں۔آج تک ریورس سویپ کے سحر سے باہر ہی نہیں نکل سکے۔لگتا ہےیہ ریورس سویپ ان کے کیریئرکو ریورس کرکے ہی رکے گا۔یہ ہیں آل راؤنڈر محمد حفیظ ۔انہیں شعیب ملک کا متبادل قرار دیا گیا۔لیکن میگا ایونٹ میں وہ آل نکال کر صرف راؤنڈر ہی دکھائی دیئے۔ڈومیسٹک کرکٹ میں ان کی منہ زوری میگا ایونٹ میں ہوگئی کمزوری۔وہ بولر دکھائی دیئے اور نہ بیٹسمن ۔چار میچوں میں صرف انتالیس رنز بنائے ۔چھ میچوں میں چودہ اوور کئے۔رنز کھائے ۔ایک سو تئیس ۔اور وکٹیں کتنی لیں صرف دووہ بھی غلطی سے جناب کا اپنا کوئی ارادہ نہ تھا ۔۔
ارے اپنے چاکلیٹی ہیرو کو ہم بھول ہی گئے تھے۔جی ہاں وہی محمد آصف۔وینا ملک والے۔نمبر ون ہیں اسی لئے ایک ہی میچ کھیلا۔لیکن اس میں بھی ویناملک سےجھگڑےکی گتھیاںسلجھاتےرہے۔اورانگلش بلے بازان کی درگت بناتےرہے۔چار
اوورز میں۔۔تینتالیس رنزدیئے۔اورچونگے میں ایک وکٹ بھی نہیں ملی۔زمین کےان ستاروں میں سعید اجمل کا ذکرنہ ہوممکن نہیں۔چھ میچوں میں گیارہ وکٹیں لےکرشاندارکارکردگی دکھائی۔لیکن دشمنوں کو یہ عزت ایک آنکھ نہ بھائی ۔شاید کسی کی بدعا ہی لگی ۔ٹورنامنٹ میں کمائی عزت آخری میچ میں خاک میں مل گئی۔ قوم کے ساتھ ان کو بھی یہ آخری اوور ہمیشہ یاد رہے گا۔ بےچارے سعیداجمل ۔۔ آخرمیں اتنی دیراوورنہیں کروایا۔جتنی دیر بیٹھ کےآنسوبہائے ۔ہائے ٹی ٹوئنٹی ہائےٹی ٹوئنٹی۔ ہائے

Sunday, April 25, 2010

میڈیاکی بادشاہ گری۔۔ واہ واہ ۔۔۔۔یاانےواہ






آج ایم کیوایم نے
پنجاب کےتین شہروں میں پنجاب کنونشن کرکے یہ بتادیا کہ انہوں نےپنجاب کےسیاسی میدان میں اپنے قدم رکھ دیئےہیں۔ پنجاب میں ان کےقدم پکے ہونے کا تو پتہ نہیں۔ لیکن آج کے دن یہ بات ضرور ثابت ہوگئی پاکستان کے میڈیا میں ایم کیوایم کے قدم ضرور پکے ہیں۔ آج پاکستانی میڈیا نے یہ ثابت کردیا ۔ صحافی نہ بکنے والے ہیں نہ ڈرنے والے۔۔۔حق سچ کے علم بردار ہیں۔ ہمیشہ حق پرستوں کاساتھ دیں گے۔دوسرے کہیں نہ کہیں ۔۔ایم کیوایم والے تو خود کو حق پرست کہتے ہیں۔اس لئے قلم کے یہ سپاہی اسی کے ساتھ ہیں۔ لوگ پی ٹی وی کا خبرنامہ اس لئے نہیں دیکھتے کہ اس پرخبریں کم ہوتی ہیں ۔۔صدر اور وزیراعظم زیادہ۔۔لیکن آج کے دن پرائیویٹ نیوز چینلز نے پی ٹی وی کوبھی پیچھے چھوڑ دیا۔ ہر چینل کا اپنا ایک نعرہ ہے۔ کوئی ہرخبر پر نظر رکھتا ہے۔ کوئی ہروقت، بروقت ہے۔ کوئی جان کے جیو کا شورمچاتا ہے۔ کسی کو دنیا کی خبر ہے۔ لیکن آج کے دن ہر چینل کا ایک ہی منظر تھا۔ ہر چینل کی ایک ہی خبر پر نظر تھی۔ ہرکوئی ایک ہی بات بتانا چاہتا تھا۔ دنیا کی خبریں چھوڑ کر ایک ہی منظر دکھاناچاہتا تھا ۔ایک ہی منظرتھا۔ہرسکرین پرایم کیوایم کےپنجاب کنونشن کامنظر۔پاکستان کے عوام حیران تھے ،پریشان تھے ۔۔سیاسی جماعتوں کے کنونشن۔ان کےلئے کوئی نئی بات نہیں۔ ہاں اگران کےلئے کوئی نئی بات تھی تو وہ اس کنونشن کی میڈیا کوریج تھی ۔معاملہ خبروں کا ہوتوٹی وی چینل ناظرین کھوناپسند کرتے ہیں لیکن اشتہارنہیں۔۔لیکن اس کےلئے تو انہوں نے اشتہاروں کی پرواہ کی نہ ناظرین کی۔انہیں کس چیز کی پرواہ تھی۔وہی بہترجانتےہیں۔۔قائدتحریک کا خطاب تو سنانا ہی تھا۔ سٹیج بننے سے لیکر سٹیج ختم ہونے تک کے منظر دیکھ لوگوں کی حیرانگی لازمی امرتھا۔اس منظرکودیکھ کر کسی اور نے کچھ کہاہو یانہ ۔۔میں تو یہ یہی کہتا ہوں۔میڈیا باجماعت ہوچکا ہے۔ایم کیوایم کی رکنیت سے فیض یاب ہوچکاہے۔

Saturday, March 27, 2010

شاہ کے جملے،شاہ زادی کے قہقہے

مخدوم شاہ محمود قریشی ۔پیر بھی ہیں اور وزیر بھی۔۔سیاست بھی کرتے ہیں اور سیادت بھی۔ سفارت کاری تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔مریدوں کے دم سے ہویاسیاست کےدم ،دولت کی بھی ریل پیل ہے۔ سفارت کاری کے ساتھ اب کرنےلگے ہیں مزاح نگاری بھی۔۔اور اس کی سند کسی اور سے نہیں لی۔بلکہ امریکہ بہادر سے لی ہے۔جو ہےسب پہ بھاری بھی۔جن کی باتوں نے امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کے پیٹ میں بل ڈال دیئے۔یہ الگ بات ہے کہ امریکہ نے شروع دن سے ہی پاکستان کوامداد کےنام پر پیٹ کے بل ڈال رکھا ہے۔ اس کےلئے بلوں اور ترمیموں کی بھول بھلیوں کا وبال رکھا ہے۔۔واشنگٹن میں امریکی وزیرخارجہ کےساتھ مشترکہ پریس کانفرنس ہوئی۔ توہیلری نے روکھی سوکھی روایتی باتیں ہی کیں۔ اور پھر شاہ صاحب بولے۔اورایسے بولے کہ ہیلری ہنسی کے بند باب کھولنےپر مجبورہوگئیں۔قہقہ مارکرہنسی اورہنستی ہی چلی گئیں۔ شاہ صاحب کی باتوں نے دکھایا کمال ۔۔اور ہیلری کلنٹن ہنس ہنس کر ہوئیں بے حال۔اور یہی تو مخدوم صاحب چاہتے تھے۔ہیلری صاحبہ ہنستے ہنستے بےقابوہونے لگیں تھیں۔اور شاہ صاحب سےٹکرانےلگیں تھیں۔شاہ صاحب نے بھی اپنا سرآگے کردیاتھا۔ کہ شاہوں کے شاہ کی شاہ زادی کو مشکل نہ ہو۔ لیکن یہ حسین حادثہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔اور ساداتی کا بھرم بھی رہ گیا۔ورنہ میڈیا کی کالی آنکھیں یہ منظرباربار دکھاتیں۔نئےزاویےبناتیں،مریدوں کے دل جلاتیں،تبصرےہوتے ،مظاہرےہوتےاورامریکہ مردہ باد کے نعرے ہوتے،نیلوفرکی طرح شاہ صاحب بھی وزارت سے پدھارے ہوتے۔لیکن اللہ کا شکرہے۔سیادت بھی بچ گئی وزارت بھی بچ گئی۔ معمولی بات تھی آئی گئی ہوگئی۔

Thursday, March 25, 2010

لوڈشیڈنگ

بجلی کیا بند ہوئی
زندگی بند ہوگئی
روشنی تھی خوشی
خوشی کھو گئی
ختم ہوئےکاروبار
مزدوربےروزگار
فیکڑیوں کوتالےلگ گئے
غریبوں کےچولہےبجھ گئے
روشنیاں کھوگئیں
ظلمتیں مقدرہوگئیں
لوڈشیڈنگ بنی عذاب
ٹوٹے سب خواب
عوام کوہوئی خواری
سڑکوں پرماراماری
پھولوں کو بھی پسینہ آگیا
جھوٹا وعدہ کرنےکمینہ آگیا
گرمی سےلوڈشیڈنگ سے تنگ
ننھی پری روتے روتےسوگئی
ہائےقوم کی قسمت سوگئی
اندھیروں کی نذرہوگئی

Friday, March 19, 2010

بہت ہوگیا۔۔۔

اب بدل لو خود کو
یہ ہے قائد کا پاکستان۔۔۔ہردم پریشان ۔ہرروز نیا بحران۔جہاں ٹریفک میں پھنسی ایمبولینسیں چیختی رہتی ہیں۔۔مریض تڑپتے رہتےہیں۔۔مرتےرہتےہیں۔رکشہ خان پیداہوتےرہتےہیں۔اورحکمرانوں کےقافلے چلتے رہتےہیں۔عوام کو طاقت کا سرچشمہ تو کہا جاتا ہے۔لیکن اس چشمے میں اول تو پانی کم ہی چڑھتا ہے۔ اگرکبھی طغیانی کا خطرہ پیداہوتا ہے۔ تو اقتدارکی طاقت کے ذریعے یہ چشمہ خشک بھی کردیا جاتاہے۔ لوہے کو لوہا کاٹتاہے۔یہ بات ہمارے حکمرانوں کو خوب پتا ہے۔ عوامی طاقت کا پتہ کاٹنے کےلئے وہ پولیس کا پتہ پھینکتے ہیں۔جوعوام کے دیئے ٹیکسوں پر پلتی ہے۔لیکن سرکارکےاشاروں پرچلتی ہے۔شاہ سےزیادہ شاہ کی وفادار ہے۔ماراماری سے اس کو تو ویسے بھی پیار ہے۔ لاٹھیاں اورآنسو گیس لاتی ہے۔ اورعوام کو آٹھ آٹھ آنسو رلاتی ہے۔جب آتی ہے۔ تو عوامی طاقت کا نشہ ہوا ہوجاتا ہے۔ اگر کبھی ۔۔لوگ بپھرجائیں۔اپنی بات پہ اڑجائیں۔ظلم کےسامنےسینہ سپرجائیں۔توپھربھی کرسی کےپجاری نہیں ڈگمگاتےہیں۔ذہن لڑاتے ہیں۔طاقت کوسازش سےدباتے ہیں۔پھوٹ ڈلوائی جاتی ہے۔ جھوٹے وعدوں کی مرہم لگائی جاتی ہے۔ سینوں میں لگی آگ بجھائی جاتی ہے۔ لیکن بات اپنی ہی منوائی جاتی ہے۔ کیونکہ عوام جو ٹھہرے ازل کےبھولےبھالے۔کبھی زندہ باد کبھی مردہ باد کےنعرےلگانےوالے۔چوروں کو۔۔لٹیروں کوقاتلوں کو سرآنکھوں پر بٹھانے والے۔۔۔دیکھی مکھی کھانےوالے۔آزمائے ہوؤں کو باربارآزمانےوالے۔ظالموں کےلیے جانیں گنوانےوالے۔جنہیں سیاہ ست دان کہتے ہیں اپنے سالے۔۔ہاں ۔۔ہاں یہی سب ہیں ان مسئلوں کے رکھوالے۔۔جنہوں نے سڑکوں پر انسان مارڈالے ۔ٹریفک میں بچے پیداکرڈالے۔کیسے کیسے ہیرےمٹی میں رول ڈالے۔خود ہی ظلم کریں، خود ہی بین ڈالیں۔نظام کےغلام۔نشان کےغلام۔۔ابہام کےغلام۔کوئی اور نہیں اپنے مسیحا خو د ہیں ۔مگر سوئے ہوئے بےسدھ ہیں۔اے سوئے لوگو۔۔۔جان لو خود کو نہ بدلو گے تو بدل دیئے جاؤ گے۔کیونکہ یہی خالق کا قانون ہے۔اوریہی دنیا کی تاریخ۔

Tuesday, March 9, 2010

پاکستانی سیاہ ست دانوں پرایک نظر


مردِ لڑ۔۔(حُر)یعنی زورداری صاحب نے تو اب لڑائی مارکٹائی سے توبہ کرلی ہے۔کیونکہ انہیں پتہ ہے۔لڑائی مارکٹائی کے بعدجیل یاتراکرناپڑتی ہے۔اس لئے لڑائی سے بچنے کےلئے وہ وعدے کرتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ وعدوں کو قرآن حدیث نہیں سمجھتے اس لئے توڑ دیتے ہیں لیکن پھر بھی لڑائی نہیں کرتے ۔ان کی پیاری نے دنیا چھوڑی تو انہوں نے ایوانِ دگڑ (صدر)میں گوشہ نشینی اختیارکرلی۔۔دشمن کمزور نہ سمجھیں اورکبھی حریت پہ جو زد پڑتی ہے۔ تو وہیں سے ٹیلی فونک خطاب کے ذریعے دھاڑ لیتے ہیں۔ڈرتے بالکل نہیں ۔صرف لڑائی سے بچنے کےلئےہی ۔باہرنکلنےسے کتراتے ہیں۔عوام کی خدمت کے جذبے سے بھی دل سرشار ہے۔ اسی لئےاندر بیٹھےسنتِ مشرفی ادا کرتے رہتےہیں یعنی اندربیٹھےہی منصوبوں کےافتتاح پر افتتاح فرماتے جاتے ہیں۔

پاکستانی سیاست میں اب ذکر ہے ان کا۔ جن کی گفتگو ایسی کہ مخالف کو پسینہ آئے۔ جب چاہتے ہیں۔ بجادیتے ہیں دوسروں کی ٹلی۔ اس لئے لوگ کہتے ہیں انہیں شیدا ٹلی۔ لیکن این اے پچپن کے الیکشن میں ان کی اپنی ٹلی بج گئی ہے۔۔بہت سی لیگوں میں سفر کیا لیکن کوئی پسند نہ آئی ۔اب اپنی لیگ بنائی ہے۔جس کی سکوٹری پر فی الحال اکیلےہی نظر آتے ہیں۔سیٹوں کی پرواہ نہیں ۔اس لئے اس پرایک ہی سیٹ لگائی ہے۔ لیکن عوام کے پکے ہمدرد ہیں۔ کہتے ہیں ۔اقتدار ملا تو مہنگائی ختم کردیں گے۔لیکن ہارکے بعد اب کہتے ہیں سگارملا تواپنے سب غم ختم کردیں گے۔۔اندر کی سب خبریں ہیں ان کے پاس ۔صرف ایک اپنی شادی کی ہی خبر نہیں۔شاید۔مہنگائی سے ڈرتے ہیں۔ اس لئے شادی نہیں کرتے ہیں۔ اوپر سے کہتے ہیں شادی اور محبت کے لئے وقت نہیں ۔لیکن الیکشن میں یاروں کی مہربانی سے۔ اب ان کے پاس وقت ہی وقت ہے۔ ہارکا غم اور سگارکا دھواں ہی آج کل ان کےہمراہی ہیں۔

سیاست کے اتنے سارے یزیدوں سے دو حسین بھی برسرِ پیکارہیں۔۔۔ کوئی کام کرتے نہیں۔۔ رہتے بیکارہیں۔۔ایک ملک کی سیر کرتے ہیں اور ایک لندن کی۔۔۔یہ الگ بات ہےدوسرے بھی انہیں یزیدہی سمجھتےہیں۔
ایک کا نام ہے بقراط حسین۔۔اور دوسرے ہیں کاف حسین
اک موصوف جب بولتےہیں۔توخردودانش کے موتی بکھیرتےہیں۔ لیکن بے عقل لوگ کان ٹٹولتےہیں۔شک ہوتا ہے۔ لب ہلتےہیں یا واقعی کچھ بولتےہیں۔یوں لگتا ہے جیسے لیتے ہیں لوگوں کا امتحان ۔ان کی کہی ہوئی باتیں سمجھ سکتے ہیں صرف یارانِ نکتہ دان۔۔ ۔۔۔ان کے دور میں کوئی مرا۔ کوئی آپریشن ہوا۔یا۔آیا آٹے چینی کا بحران ۔۔یہ اس وقت بھی صحیح تھے۔ اور اب بھی ہمیشہ رہتے ہیں۔ کُول اور کہتےہیں ۔۔سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔بس تسی مٹی پاؤ۔۔مٹی پاؤ

اور۔جب آتی ہے کاف حسین کی باری ۔۔لوگوں پر بھی ہوتا ہے خطاب سننا بھاری۔۔یوں لگتا ہے ۔۔گرڑ گرڑ کرکےچلتی ہے۔ گاڑی۔۔حکومت ۔اورلوگوں کو ہی نہیں ۔۔لفظوں کو بھی کھینچتے ہیں۔۔بادشاہ نہیں بادشاہ گر کہلانا چاہتے ہیں۔جو یہ کرتے ہیں وہ سب صحیح ۔باقی سب غلط۔ ۔۔اور غلطی۔۔غلطی تو ان سے برداشت نہیں ہوتی۔ اس لئے ان کے وزیر استعفے ہمیشہ جیب میں رکھتے ہیں۔ ادھر بات نہ مانی گئی۔ ۔۔ ادھر استعفے باہر۔۔بات مانی گئی تو پھرتو آپ سمجھتے ہی ہیں ۔۔ سب ٹھیک ہے۔
ایک وہ ہیں جن پر ہوا تھا اک بار کرمِ الہیٰ۔۔۔بس اس وقت سے ذہن و دل کی تباہی۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر گرے ۔۔۔آٹا مہنگا ہو یا سستا۔۔۔انہیں صرف ہوتا ہے۔ پنجاب حکومت سے بس گلہ۔۔۔ان کے دور میں تو شیر اور بکری ایک ہی نلکے سے پانی پیتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس میں سے پانی نہ اس وقت آتا تھا ۔۔نہ اب۔صحافیوں کو پلاٹ دیئے۔۔اورخبروں کےحقوق لےلئے۔۔اس لئے۔۔عہدے نہ ہونے کے باوجود بھی خبروں میں نظر آتے ہیں۔

بہت عرصے تک ملک پر راج کیا بابرہ شریف نے ۔اور لوگوں نے سمجھنا شروع کردیا پاکستان میں صرف بابرہ شریف ہی شریف ہیں۔لیکن پھر یہ مرد مجاہد میدان میں اترا۔۔اورہمددردوں کےتعاون سے شرافت کے میدانوں میں جھنڈے گاڑ دیئے۔اور اب جب بھی شریفوں کی بات ہوتی ہے۔ توسمجھیں انہیں کی بات ہوتی ہے۔ شرافت تو ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ اس بات کابہرحال پتہ نہیں چل سکا کہ یہ کُٹ حقیقی ابا جی کی ہے یا سیاسی۔۔
ویسے تو فارغ البال ہیں۔۔لیکن اب سرپر چند بال لگوالئےہیں۔۔لیکن یہ شایداسی شرافت کا اثر ہےکہ تیزبےشرم (پرویزمشرف) کے علاوہ انہیں سب ہرا ہی دکھتا ہے۔ مردِ لڑ۔۔زور۔داری کے وعدوں پر انہیں اعتبار نہیں ۔۔لیکن پھربھی انہوں نے سر پر فرینڈلی اپوزیشن کی اوڑھنی ۔اوڑھ رکھی ہے۔شاید نئے لگے بالوں کو حجامت سے بچانے کےلیے۔۔ملک میں موجود جھنجٹوں سے جان چھڑائے کےلئے۔جس میں سے کبھی کبھی وہ غصے والی آنکھیں دکھاتے ہیں ۔